20190223; کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا

کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
میں تمہارے دروازے پر دستک دیتی
اور تم اسی دروازے کے پیچھے سے اچانک باہر نکل کر مجھے ڈراتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
میں دوپہر میں آکر تمہیں اٹھاتی اور تم اپنی کام والی سے چائے اور دو فرینچ ٹوسٹ بنواتی، ۔
پھر اس میں سے ایک کھا کر مجھ سے کہت
“ماہ نور یہ پورا کرلو”
اور میں زبردستی اس کا آدھا تمہیں کھلاتی
اور باقی آدھا خود کھاتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
میں تمہارے کچن میں کھڑے ہو کر تمہیں کبھی چاؤ مین، تو کبھی آملیٹ، تو کبھی وائٹ کڑاہی بنانا سکھاتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
ہم تمہارے گھر کی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر
کبھی صبح کا ناشتہ، کبھی دوپہر کا کھانا کھاتے، ۔
اور کبھی تمہارے بستر پر بیٹھ کر شام کی چائے کے ساتھ بسکٹ
پھر جب میں برتن اٹھا کر کچن میں لے جانے لگتی تو تم کہتی، “نہیں، اس کو یہیں چھوڑ دو” ۔
اور پھر اپنی ملازمہ کو آواز لگاتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
تم مجھے فون ملاتی اور کہتی
“میرے گھر آ جاؤ”
“میرے ساتھ پارک چلو”
“کہیں باہر چلتے ہیں”
“میرا دل گھبرا رہا ہے”
اور میں سارے کام چھوڑ کر تمہارے گھر چلی آتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
میں ہر دفعہ تم سے خوشی خوشی ملتی
اور تمہارا چہرہ دیکھ کر میرے خیالات میں
” کیا تم ٹھیک ہو؟”
“کیا تم ٹھیک ہو؟”
“کیا تم ٹھیک ہو؟”
کی گونج نہیں اٹھ پڑتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
تم کہتی “میں ٹھیک، الحمدللہ” ۔
اور میں تمہارا یقین کرلیتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
تم مجھسے جھوٹ بولتی
اور میں تمہارا یقین کرلیتی
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا
کاش سب کچھ ویسا ہی رہتا


Leave a comment